دنیا بھر میں دہشتگردی کے تانے بانے امریکا سے ملنے کا انکشاف

10:12 PM

http://www.awaztoday.tv/News-Talk-Shows/80390/Q-With-Ahmed-Qureshi-8th-March-2015.aspx
سانحہ نائن الیون اور دنیا بھر میں اسلام کے نام پر پھیلائی جانے والی دہشت گردی و شدت پسندی کے تانے بانے امریکا سے ملنے کا انکشاف ہوا ہے۔
ایکسپریس نیوزکے پروگرام ’’ایٹ کیو ود احمد قریشی‘‘ میں میزبان نے تجزیاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکی و یورپی خفیہ ایجنسیوں نے ’’اسلام‘‘ پر قبضہ کرکے اسے اپنا ’’ادارہ‘‘ بنا لیا ہے
جبکہ دنیا کا سب سے بڑا مدرسہ یونیورسٹی آف نبراسکا، امریکا میں ہی واقع ہے جوشدت پسندوں کی نرسری ہے، جہاں سب سے پہلے جہادی لٹریچر لکھا گیا اور یہ کام 1981 میں شروع ہوا۔ یہاں تشدد پر مبنی کتابیں کروڑوں کی تعداد میں شائع کر کے پاکستان کے راستے افغانستان پہنچائی گئیں، اس کی تصدیق امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں 23مارچ 2002ء کو چھپے آرٹٰیکل The ABC’S OF JIHAD IN AFGHANISTAN میں کی گئی۔
القاعدہ اور اسامہ بن لادن سی آئی اے کی پیداوار تھے جنھیں امریکا نے روس کیخلاف استعمال کیا، اسامہ بعدازاں باغی ہوگیا تو اسے مار دیا گیا۔ صدر ریگن کے دور میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)کے ڈائریکٹر جنرل ولیمزاوڈم نے ایک بیان میں اعتراف کیا تھاکہ کسی بھی پیمانے سے دیکھیں امریکا شدت پسندی کے فروغ میں شامل رہا ہے۔ 1978ء میں جب امریکی سینیٹ عالمی دہشت گردی کیخلاف قانون بنانا چاہ رہی تھی تو معلوم ہوا کہ جس جہت یا زاویے سے بھی دیکھیں امریکا خود قانون شکن نظرآتا ہے۔ انھوں نے اس خفیہ ہتھیارکو چیچنیا، بوسنیا، افغانستان، چین، عراق، لیبیا اور شام میں استعمال کیا۔ احمد قریشی نے بتایا کہ داعش کا بانی ابوبکر البغدادی، بوکو حرام کا سرغنہ اور ٹی ٹی پی کا عبداللہ محسود بھی گوانتانا مو جیل میں رہا۔
عبداللہ محسود کو رہائی کے بعد پاکستان کے بجائے افغانستان کے حوالے کیاگیا،جہاں برین واشنگ کے بعد پاکستان داخل کیا گیا، اس نے چینی انجنیئروں کوقتل کیا۔ بی ایل اے کے براہمداغ بگٹی کے بھی امریکا سے رابطے ہیں بعدازں اسے سوئٹرز لینڈ پہنچا دیا گیا، جہاں اسے ابھی تک سیاسی پناہ نہیں ملی۔ احمد قریشی نے مغربی صحافیوں کی رپورٹوں کے حوالے دیتے ہوئے کہاکہ برطانیہ شدت پسندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے ’’جہادی جان‘‘ بھی برطانوی شہری ہے جبکہ آئی ایس آئی ایس پورے یورپ سے بھرتیاں کر رہی ہے اور اسے کوئی روکنے والانہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں شام، عراق، لیبیا، نائیجریا اور صومالیہ کے ان علاقوں میں بنائی گئیں جہاں تیل یاامریکی مفادات ہیں۔
اسلام آباد میں لال مسجدکی طالبات ڈنڈوں سے لیس اور کیمیائی ماسک پہنے برآمد ہوتی ہیں جبکہ مولانا عبدالعزیر نے داعش کی حمایت کا اعلان کیاکہ وہ اس لیے آئی ایس آئی ایس کی سپورٹ کرتے ہیں کیونکہ وہ خلافت کی داعی ہے ، جس کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں جذبات میں آ کرداعش کے حق میں وال چاکنگ کی گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی داعش کے جھنڈے لیے نقاب پوش نوجوان نظرآئے جیسے وہ خفیہ ایجنسی کے اہلکار ہوں۔ بھارت نے بھی اسلام کو اپنے انٹیلی جنس سیٹ اپ میں’’ادارہ‘‘ بنا کرسیاسی مقاصدکیلیے استعمال کیا۔
دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل طلباء کو اپنی خفیہ ایجنسی میں بھرتی کیا پھر افغانستان، پاکستان اور سنکیانگ میں استعمال کیا۔ ان سے فتوے نکلوائے کہ مغرب اور کفار کے ساتھ لڑنے سے پہلے مسلمانوں کو قتل کرنا حلال ہے۔ ادھر ایران نے اپنے مقاصد کیلیے اسرائیل، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگرممالک میں حزب اللہ بنائی۔ آئی ایس آئی پر بھی مدارس بنانے کے الزام لگائے گئے تاہم اس نے امریکا کی طرف سے افغانستان میں چھوڑے ہوئے کام کوآگے بڑھایا، جس کے علاوہ شایدکوئی اور چارہ نہ تھا۔ اسرائیل نے حماس کا تجربہ بھارت کو بھی سکھایا کہ کشمیری تحریک پرکس طرح قابو پانا ہے۔

You Might Also Like

0 comments